Ticker

9/recent/ticker-posts

.?Are you Know What is Bait ul Muqaddas , بیت المقدس کے حوالے سے بنیادی معلومات



کیا آپ جانتے ہیں۔؟

بیت المقدس کے حوالے سے معلومات

 

 بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، یہ فلسطین کے شہر القدس میں واقع ہے، بعض نے شہر کو بھی بیت المقدس کہا ہے۔

 

 چونکہ اس زمین میں بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کے مزارات ہیں اس لیے اسے قدس کہا جاتا ہے۔

 

 حضرت سیدنا سلیمان علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کا مزار اقدس اور عالم اسلام کی مشہور و معروف مسجد اقصی بھی اسی شہر میں واقع ہے۔

 

 کعبۂ معظمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اس کی بنیاد ڈالی۔

 

 اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے کی۔

 

 عرصۂ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس مقام پر رکھی جہاں حضرت سیدنا موسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت سیدنا سلیمان علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو اس کی تکمیل کی وصیت فرمائی۔

 

 حضرت سیدنا سلیمان علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جنوں کی ایک جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی، ابھی ایک سال کا کام باقی تھا کہ آپ کے انتقال کا وقت آ گیا۔ آپ نے غسل فرمایا، نئے کپڑے پہنے، خوشبو لگائی اور اسی طرح تشریف لائے، عصا پر تکیہ فرما کر کھڑے ہو گئے۔ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی روح قبض کر لی۔ آپ اسی طرح عصا پر ٹیک لگائے رہے۔ پہلے تو جنوں کو رات کی فرصت مل بھی جاتی تھی اب دن رات برابر کام کرنا پڑتا تھا۔ حضرت ہر وقت کھڑے ہی رہتے تھے اور اجازت مانگنے کی کسی میں ہمت نہ تھی، ناچار سال بھر تک یک لخت دن رات برابر کام کیا۔

 

 حضرت سیدنا سلیمان علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے بیت المقدس کی مسجد کو سنگ رخام (سنگ مرمر)، ہیروں موتیوں اور یاقوتوں سے بنوایا اور بیت المقدس کے گنبد کے سرے پر کبریت احمر (سرخ گندھک) کا انتظام کیا جس کی روشنی کئی میلوں تک پہنچتی تھی۔

 

 حضرت سیدنا زکریا علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک زمانہ میں بیت المقدس کے خدام کی تعداد چار ہزار تھی، ان خدام کے ۲۷ یا ۷۰ سردار تھے جن کے امیر حضرت سیدنا زکریا علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام تھے۔

 

 حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر حضرت سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام تک کعبہ معظمہ ہی قبلہ رہا، پھر حضرت سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر حضرت سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام تک بیت المقدس قبلہ رہا۔

 

 ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں مسلمانوں نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھیں۔

 

 ہجرت سے ایک سال ساڑھے پانچ مہینہ کے بعد محبوب کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کی خواہش کے مطابق پندرھویں رجب پیر کے دن مسجد بنی سَلَمَہ (جسے اب مسجد قبلتین کہا جاتا ہے) میں نماز ظہر کے درمیان قبلہ کی تبدیلی ہوئی۔

Post a Comment

0 Comments